ایک سچی کہانی 😢😭

 😭😭😭 ایک سچی کہانی 😢


شادی کے کافی سال ہو چکے تھے لیکن سدوخان کا آنگن خالی تھا ۔ پھر ایک دن صبح کو اچانک گولی چلنے کی آوازیں شروع ہوئی ۔ پڑوسیوں کے بچے اپنی ماؤں سے پوچھنے لگے تو ان کو بتایا گیا ۔ جاؤ بیٹا سدو کاکا کے گھر سے مٹھائی لیتے آنا ۔ شادی کے کافی سالوں بعد سدو خان کی بانجھ اہلیہ کو قدرت نے اولاد نرینہ کی نعمت سے نوازی تھی ۔ اللہ کے اس احسان پر سدو خان نے نومولود کا نام احسان رکھ دیا ۔ ماں نے بچے کی پرورش میں دن رات ایک کر دی ۔ احسان کی پیدائش کے بعد اس کی ماں ایک دفعہ پھر سے ہمیشہ کے لیے بانجھ ہوئی ۔ انھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کو خود سے بڑھ کر کھلایا پلایا ۔ اپنے منہ کا نوالہ اسے دے دیتی ۔ اس کی صحت کا بھرپور خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں خوش رکھنے کے لیے پریوں کی کہانیاں سناتی تھیں ۔  سدو خان نے انتہائی غربت میں یہ سوچ کر تعلیم دلائی کے میرا بچہ پڑھ لکھ کر ایک دن ہمارا سہارا بنے گا ۔

وقت کا بے رحم پہیہ چلتا رہا ۔پڑھ لکھ کر احسان جوان ہوا تو اس کے پاس مناسب کاروبار کے لیے رقم اور نہ ہی ملازمت کے لیے مطلوبہ شرائط دستیاب تھے ۔ ملازمت کے لیے بھری جیب یا تگڑی سفارش لازمی ہوتی ہے ۔ بالآخر احسان نے موٹر سائیکل مکینک بن کر اپنے بوڑھے والدین کی کفالت اپنی ذمے لے لی ۔ گھر سے نکلنے پر انکی بوڑھی ماں ان کے لوٹنے تک دروازہ تکتی تھی ۔ اس کی ماں اپنے شوہر کے سامنے کبھی کبھار ان کے لیے رشتہ ڈھونڈنے کا ذکر چھیڑتی تو سدو خاموش ہوجاتا تھا کیونکہ اسے اپنی جیب اور حالات پر بالکل بھروسا نہیں تھا ۔

قصہ مختصر گزشتہ رات ضلع موسی خیل سے واپسی پر راستے میں ایک انجانے شخص کی خراب موٹر سائیکل دیکھ کر احسان اپنی موٹر سائیکل روک کر اتر آیا ۔ ابھی وہ موٹرسائیکل ٹھیک کرنے لگا تھا کہ ڈی آئی خان کی جانب سے آتی ہوئی ٹوڈی گاڑی نے انہیں بری طرح سے کچل دیا ۔ انہیں زخمی حالت میں سول ہسپتال لایا گیا جہاں پر وہ بار بار اپنی ماں کو یاد کر رہا تھا ۔ حالات کی نزاکت کے پیش نظر ڈاکٹروں نے والدین کو اطلاع دیے بغیر انہیں کوئٹہ ریفر کر دیا ۔ جہاں پر وہ راستے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا ۔

ایک خوبرو نوجوان ، اکلوتی اولاد اور گھر کے واحد کفیل کے اچانک موت کی خبر سن کر سدو اور ان کی اہلیہ کے اوسان خطا ہوگئے ۔ ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔ تڑپتی روح ٫ ڈوبتے دل ، کانپتے بدن ، پھٹتے دماغ ، لڑکھڑاتے پیروں سے وہ اپنے لخت جگر کو دیکھ کر پتھر بن گئے ۔ ان کے سارے آرمان خاک میں مل گئے ۔ گھر کے چولہے کے ساتھ انکی امیدوں کے چراغ بھی گل ہوگئے ۔ 

سنا ہے انکی ماں پر غشی طاری ہو گئی ہے ۔ اللّٰہ پاک انہیں صبر جمیل عطاء فرمائے ۔

تمام اہلیان شہر اور مخیر حضرات سے حسب توفیق تعاون کی اپیل ہے .

😢😢😢😭😭😭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

🌹ہلکا پھلکا ادبی مزاح*مزیدار کہانی🌹 😀

میں ڈاکو ضرور ہوں پر بے غیرت نہیں ہوں۔